جلیل عالی ۔۔۔ سلام

یزیدی عہد ہے امت کی رسوائی نہیں جاتی
حسینیت کے دعوے ہیں کہیں پائی نہیں جاتی

کوئی جب رزم و بزمِ کربلا کا راز پا جائے
تو پھر جو سوچ میں آتی ہے گہرائی نہیں جاتی

یہاں جھک جائیں جو سر تاجِ درویشی انھیں زیبا
وہ کیا پائیں کہ جن سے بوئے دارائی نہیں جاتی

یہ راہِ عشق و مستی ہے میاں اس راہ میں دل کیا
قلم سے بھی توازن کی قسم کھائی نہیں جاتی

قیام و صبرِ شبیری کا سورج بجھ نہیں سکتا
یزیدی جبر کی جب تک ستم زائی نہیں جاتی

کبھی پڑھ کر انیسِ غم سرا کے مرثیے دیکھو
تمھیں کس نے کہا دل پر جمی کائی نہیں جاتی

سرِ الواحِ جان و دل وِلا شاہِ شہیداں کی
منیمِ بخت خود لکھتا ہے لکھوائی نہیں جاتی

سمجھ پائے کوئی کیا رتبہِ سبطِ پیمبر کو
کہ اِس اوجِ ضیا تک موجِ بینائی نہیں جاتی

اُدھر سچی عقیدت ہی کو اذنِ باریابی ہے
وہاں عالی ہماری حرف آرائی نہیں جاتی

Related posts

Leave a Comment